عالمی یوم مادری زبان : مادری زبان کی اہمیت اور سماجی ذمہ داری - اردو اکیڈیمی کا اجلاس
عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام اجلاس بعنوان "مادری زبان کی اہمیت اور سماجی ذمہ داری"
تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام 21/فروری 2021 کو عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر ڈاکٹر محمد رحیم الدین انصاری صدرنشین تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کی زیر سرپرستی اور ڈاکٹر محمد غوث ڈائرکٹر/سکریٹری کی صدارت میں خواجہ شوق ہال اردو مسکن خلوت حیدرآباد میں ایک اجلاس "مادری زبان کی اہمیت اور سماجی ذمہ داری" کے عنوان سے منعقد ہوا۔
نگران اجلاس ڈاکٹر محمد غوث نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے تمام شرکاء اجلاس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ آج عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر منعقدہ اس اجلاس میں مجھے یہ بتاتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام اس سال باوجود حالات کی ناسازی کے، اردو سے ناواقف افراد کے لئے مختصر مدتی اردو دانی کورس کا اہتمام کیا گیا۔ اسی طرح مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے تعاون سے اردو اساتذہ کا پانچ روزہ آن لائن تربیتی پروگرام منعقد کیا گیا اور ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرائجویشن کے طلبہ کے لئے سیاسیات ، معاشیات اور تاریخ کی سال اول، دوم اور سوم کی جملہ نو (9) کتابوں کی اشاعت کی گئی اور اس کے علاوہ محتلف اسکیمات کو تکمیل تک پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اردو اکیڈیمی وقتاً فوقتاً اہم مواقع پر سمینارس اور ثقافتی پروگرامس بھی منعقد کرتی ہے ، آج کا یہ اجلاس بھی اکیڈیمی کے پروگرامس کا ایک حصہ ہے۔ اردو انجمنوں اور تنظیموں کے تعاون سے اردو کے فروغ اور تحفظ کی کوششوں میں مزید تیزی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ سا بق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زبان انسان کی ایسی خصوصیت ہے جو اسے حیوان ناطق بناتی ہے اور جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ پہلے وقتوں میں گھر اور مدرسہ کا ماحول ایک ہوتا تھا، والدین بچوں سے اسکول میں پڑھائے گئے مضامین کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔ اس وقت کے اساتدہ طلبہ کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو منظر عام پر لاتے ، انہیں نکھارتے، مگر بدقسمتی سے ایسا صحت مند ماحول آج نہیں ہے۔ آج سے سو سال قبل علامہ اقبال نے کہا تھا مغرب کی طرف سے ایک خون کی لہر مشرق کی طرف آ رہی ہے اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور اپنی زبان ،اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت سے لاپرواہی برتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں نے حیدرآباد میں اردو ذریعہ تعلیم کی عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے باوجود ناگری رسم الخط کو رواج دے کر اردو کے خلاف سازش کی ۔ انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولی سطح پر جہاں انگریزی اسکول قائم ہیں ان اسکولوں میں اردو ٹیچر فراہم کئے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ دانشوران و اساتذہ اردو کا تعاون حاصل کیا جائے تو ہوسکتا ہے حالات بدل جائیں اور پھر مادری زبان کی حفاظت ہو سکے گی۔
پروفیسر نسیم الدین فریس صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ماہرین تعلیم کے مطابق ایک آدمی کی ایک سے زیادہ مادری زبان ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں 6000 زبانیں ہیں جن میں سے بعض زبانوں پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر دو ہفتے میں ایک زبان رخصت ہو رہی ہے۔ انہوں نے مادری زبان سے بے رغبتی سے خبردار کیا اور کہا کہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور اردو زبان کی بقا کے لے باضابطہ مہم چلائی جائے اور اسکول، کالجس اور یونیورسٹیز کے انتظامیہ سے اردو زبان سکھانے نمائندگی کی جانی چاہیے۔
پروفیسر فضل اللہ مکرم صدر شعبہ اردو حیدرآباد سنٹر ل یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں اردو زبان کو عام کرنے اور اس کی حفاظت کرنے پر زور دیا ، انہوں نے کہا کہ آج ہمارے گھروں سے اردو رخصت ہو گئی ہے ، ہمارے بچوں کو باورچی خانہ ، دیوان خانہ اور روزمرہ چیزوں کے اردو نام نہیں معلوم ، اس کے برخلاف بچوں کو آج ڈرائنگ روم، کچن اور میاٹ معلوم ہیں۔ ہماری تہذیب رخصت ہو چکی ہے، رشتوں کو آنٹی اور انکل تک محدود کر دیا گیا ہے، جب کہ اردو زبان میں رشتوں کا مکمل ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ماؤں کو چاہیے کہ وہ اولاد کو ان کی مادری زبان ،اخلاق و تہذیب کا درس دیں ،انہوں نے نپولین کا قول دہرایا ،جس میں اس نے کہا تھا کہ تم بہترین مائیں دو میں تم کو بہترین قوم دوں گا۔ انہوں نے اردو کی ترقی کی توقع کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ اردو زندہ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج اردو دلت گھروں میں داخل ہو گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ ابھی حال ہی میں چار دلت طلبہ نے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پی۔ایچ ۔ڈی کی تکمیل کی ہے۔
ڈاکٹر عابد معز ممتاز مزاح نگار نے اپنی تقریر میں کہا کہ مادری زبان عطیہ خداوندی ہوتی ہے۔ انہوں نے اردو زبان کے ساتھ ہونے والی بے رغبتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج اردو کے فروغ کے سلسلہ میں جہاں مختلف انداز میں کوششیں چل رہی ہیں وہیں دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بہت سارے لوگ اردو سے واقف نہیں ہیں، ہمارے بچے آج اردو نہیں جانتے ہیں۔ ہم اس زبان کی حفاظت میں لاپرواہی برت رہے ہیں، ہمیں ان کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔
پروفیسر عبدالسمیع صدیقی ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی مانو حیدرآباد نے اپنے خطاب میں نئی تعلیمی پالیسی 2020 کا ذکر کرتے ہوئے مادری زبان کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد جہاں I.T.Hub ہے تو وہیں تہذیبی hub بھی ہے ،اور یہاں ایک Multilingual معاشرہ بھی ہے۔ ایسے میں ہم اپنی مادری زبان کی حفاظت کریں تو اس کے ذریعہ تہذیب کی بھی حفاظت ہوگی۔
ماہر تعلیم اور استاد اردو ڈاکٹر فاروق طاہر نے اپنی تقریر میں قرآنی حوالوں کے ذریعہ مادری زبان کو فطری وسیلہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مادری زبان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ انسان اپنی تمام تر ضروریات ، تکالیف ،رنج اور خوشی کا اظہار اپنی زبان میں ہی کرتا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ اس وسیلہ اظہار کو موثر اور معتبر بنانے کے لئے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اردو سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔
ممتاز شاعرجناب سردار سلیم نائب مدیر ماہنامہ روشن ستارے نے بہت دلچسپ اور موثر انداز میں اس اجلاس کی نظامت کی۔
آخر میں جناب محمد ارشد مبین زبیری انچارج ماہنامہ قومی زبان نے صدر نشین اردو اکیڈیمی ڈاکٹر محمد رحیم الدین انصاری کی مکمل صحت یابی کے لئے دعا کی اور ڈائرکٹر/سکریٹری ڈاکٹر محمد غوث ، تمام مہمان مقررین ، حاضرین اجلاس ، اردو اکیڈیمی کے عہدیداران و ارکان عملہ ، اردو مسکن کے نگران و عملہ کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر دانشوران، اساتذہ، شعرائے کرام ، محبان اردو، عہدیداران و ارکان عملہ اردو اکیڈیمی جناب عطا اللہ خان، شیخ اسمعیل ، ڈاکٹر احتشام الدین خرم احمد بن اسحاق، جنید اللہ بیگ، اطہر خان، عبد الذاکر، یوسف خان ،انور علی خان ، رجب علی پاشا، محمداسمعیل جاوید،محمد رفیع، محمد معین، معین خان و دیگر ارکان عملہ موجود تھے۔