ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی پر عائد کردہ جھوٹے الزامات کی وضاحت

بعض انتشار پسند عناصر کی جانب سے حالیہ عرصہ میں اردو اکیڈیمی کے خلاف بیان بازی کی جو ناگوار مہم چلائی جا رہی ہے اس کی اصلیت سے عوام کو واقف کرایا جانا ضروری ہو گیا ہے۔ حقائق سے واقفیت کے بغیر جس طرح پرنٹ اور سوشل میڈیا میں غیرضروری تشہیر کی جا رہی ہے وہ نامناسب طرز عمل ہے۔

ڈاکٹر محمد غوث ڈائرکٹر سکریٹری تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی نے ایک مقامی ٹی۔وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و فروغ میں مصروف ایسے ادارے کو بدنام کیا جا رہا ہے جس نے برسوں موثر خدمات انجام دی ہیں۔

انہوں نے متذکرہ واقعہ کی وضاحت میں کہا کہ اصل حقیقت صرف اتنی ہے کہ کوٹھی ویمنس کالج کی خاتون لکچرار نے کالج سمینار کے ضمن میں پچاس ہزار روپے کی امداد کا جو تقاضا کیا تھا وہ بجٹ نہ ہونے کے سبب ممکن نہیں تھا پھر بھی صدرنشین اردو اکیڈیمی ڈاکٹر رحیم الدین انصاری کی اجازت اور ہدایت پر مبلغ دس ہزار کی رقم اس ضمن میں متذکرہ کالج کو ارسال کر دی گئی۔ لیکن جب مزید رقم کا تقاضا کیا گیا تب انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ دوبارہ علیحدہ عرضداشت اردو اکیڈیمی میں داخل کی جائے جو کہ اصولی طریقہ کار بھی ہے۔ اردو اکیڈیمی کے اراکین عملہ اور اہلکار اس ساری کارروائی کے گواہ بھی ہیں۔
پھر بھی خاتون لکچرار نے بےجا الزامات کے سہارے پولیس میں ایف۔آئی۔آر درج کروا ڈالی۔ جس پر پچھلے دنوں پولیس کی جانب سے باقاعدہ تفتیش عمل میں آئی اور کسی قسم کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر پولیس نے اپنی مکمل تفتیشی رپورٹ کو عدالت میں داخل کر دیا، جس کی بنیاد پر عدالت سے یہ کیس خارج بھی ہو گیا ہے۔
اس کے باوجود پیشۂ تدریس کے وقار و معیار کو پامال کرتے ہوئے جس طرح کی معیوب حرکتیں کی جا رہی ہیں ان کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔

تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کو لائک/فالو/شئر کیجیے: